خلاصہ خطبہ جمعہ ۔ ۱۹؍مارچ ۲۰۲۱ بمطابق۱۹ ؍امان۱۴۰۰ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد۔ یوکے
فرمودہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
حضور انور نے فرمایا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے پر پہرہ دینے کا حکم فرمایا ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ آپؐ نے فرمایا اُسے اندر آنے دو اور اُسے جنت کی بشارت دوتوکیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا اُسے آنے دو اور اُسے جنت کی بشارت دو تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمرؓ ہیں پھر ایک اورشخص آیا اور اجازت مانگی اس پر آپؐ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اُسے آنے دو اور اُسے جنت کی بشارت دو تاہم ایک بڑی مصیبت اُسے پہنچے گی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ عثمان بن عفانؓ ہیں۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا ُحد پر چڑھے جبکہ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ تھے۔ اُحد پہاڑ ہلنے لگا تو آپؐ نے فرمایا اُحد ٹھہر جا ۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے اس پر اپناپاؤں بھی مارا اور فرمایا کہ تم پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔
حضور انور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔اُن کی شہادت اُس کے بعد کے واقعات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ اب مدینہ اُنہی لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور اُن ایّام میں اُن لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیر ت انگیز ہیں ۔ حضرت عثمان ؓ کو شہید تو کر چکے تھے اُن کی لاش کے دفن کرنے پر بھی اُنہیں اعتراض ہوا اور تین دن تک آپؓ کو دفن نہ کیا جاسکا ۔آخر صحابہ ؓکی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپؓ کو دفن کیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ حضرت عثمانؓ کے بارے میں کچھ بتائیں تو فرمایاکہ وہ تو ایسا شخص تھا جو ملائے اعلاءمیں بھی ذوالنّورین کہلاتا تھا۔حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ آپؓ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے اور ربّ کا تقویٰ اختیار کرنے والے تھے۔ایک روایت ملتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے اپنے ربّ عزّو جل سےیہ دعا مانگی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو آگ میں داخل نہ کرے جو میرا داماد ہو کہ جس کا میں داماد ہوں ۔حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرنبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق (یعنی جنت میں ) عثمان ؓ ہوگا۔
حضور انور نے حضرت عثمان ؓ کے غزوہ بدرسے پیچھے رہنے اُحد میں فرار اور بیعت رضوان میں شامل نہ ہونے کی بابت اعتراض پر حضرت ابن عمر ؓ کے حوالہ سے فرمایا کہ انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے دن جو اُن کا بھا گ جانا تھا تو میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معاف کردیا تھا ۔جہانتک بدر سے غائب رہناہے تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ آپؓ کی بیوی بیمار تھیں اور رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ تم اپنی بیوی کے پاس ہی رہوتمہارے لئے بدر میں شامل ہونے والوں کی مانند اجر اور مال غنیمت میں سے حصہ ہوگااور بیعت رضوان اُس وقت ہوئی جب آپؓ مکہ والوں کی طرف گئے ہوئے تھے۔بیعت رضوان کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔
حضور انور نےایک روایت کے حوالہ سے فرمایاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت حضرت عثمانؓ کی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم اپنی بیٹی کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ حضرت عثمانؓ کا سَر دھو رہی تھیں ۔ آپؐ نے فرمایا اے میری بیٹی !ابو عبداللہ (یعنی عثمانؓ)سے بہترین سلوک سے پیش آیا کرو کیونکہ وہ میرے صحابہؓ میں سے اخلاق کے لحاظ سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے۔
حضور انور نے آخر میں مکرم مبشر احمد رند صاحب معلم وقف جدید ربوہ ، مکرم منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر جماعت ضلع اسلام آباد، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد لطیف صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی اور مکرم کونوکبیک اموربیکوف صاحب آف کرغیزستان کی وفات پر ان کے ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اوربعدنماز جمعہ ان سب کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔