؍مارچ ۲۰۲۱ بمطابق۱۲ ؍امان۱۴۰۰ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد۔ یوکے
حضور انور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ کا ذکر چل رہا ہے ۔ حضرت عثمان ؓ نے جو آخری حج کیا اُس وقت فتنہ پردازوں نے سر اُٹھانا شروع کردیا تھا ۔حضرت امیر معاویہ ؓ نے اس کو بڑی شدّت سے محسوس کیا تھا۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ حج کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ بھی حضرت عثمان ؓ کے ساتھ مدینہ آئے۔آپؓ نے حضرت عثمان ؓ سے درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپؓ میرے ساتھ شام چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتاخواہ جسم کی دھجیاں اُڑا دی جائیں۔حضرت معاویہ ؓ نے کہا کہ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ؓ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوجوں کا آپؓ کی حفاظت کے لئے بھیج دوں۔ حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ نہ میں عثمانؓ کی جان کی حفاظت کے لئے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کرتاہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں۔حضرت معاویہ ؓ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ ؓ کی موجودگی میں لوگوں کو جرأت ہے کہ اگر عثمان ؓ نہ رہے تو اُن میں سے کسی کو آگے کھڑا کردیں گے۔ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلادیں۔حضرت عثمان ؓ نے جواب دیاکہ یہ کیونکر ہوسکتا ہےکہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیاہے میں اُن کوپھیلادوں۔اس پر معاویہ ؓ رو پڑے اور عرض کی کہ ان تدابیر میں سے آپؓ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجئے کہ لوگوں میں یہ اعلان کردیں کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچا تو معاویہ ؓ کو میرے قصاص کا حق ہوگا۔حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ جو ہونا ہے ہوکر رہے گا ۔ میں ایسا نہیں کرسکتاکیونکہ آپؓ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو کہ آپؓ مسلمانوں پر سختی کریں۔اس پر معاویہ ؓ روتے ہوئے اُٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو۔
حضور انور نےحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مخالفین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چند لوگ ایک ہمسائے کی دیوار پھاندکرآپ کے کمرے میں گھس گئے ۔حضرت عثمان ؓ قرآن کریم پڑھ رہے تھے ۔ حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا ۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تُو کبھی ایسا نہ کرتا۔ اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہوکر واپس لوٹ گئے۔ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان ؓکے سرپر ماری اورحضرت عثمان ؓ کے سامنے جو قرآن کریم دھرا ہوا تھا اُس کو لات مار کر پھینک دیا ۔قرآن کریم لُڑکھ کر حضرت عثمانؓ کے پاس آگیا اور آپ کے سر پر سے خون کے قطرات گِر کر اُس پر آپڑے۔اس کے بعد ایک اور شخص سُودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کرنا چاہا۔ پہلا وار کیا تو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے اُس کو روکا اور آپ ؓکا ہاتھ کٹ گیا ۔ اس کے بعد پھر اُس نے دوسرا وار کرکے آپؓ کو قتل کرنا چاہا تو آپ ؓکی بیوی نائلہ وہاں آگئیں مگر اُس شقی نے ایک عورت پر بھی وار کرنے سے دریغ نہیں کیا اور وار کر دیا جس سے آپؓ کی بیوی کی انگلیاں کٹ گئیں۔ پھر اُس نے ایک وار حضرت عثمانؓ پر کیا اور آپؓ کو سخت زخمی کر دیا۔اس کے بعد اُس شقی نے آپؓ کا گلہ گھونٹنا شروع کیا اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک آپ ؓکی روح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالاکو پرواز نہیں کرگئی۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ 17 یا 18 ذوالحجہ 35 ہجری کو جمعۃ المبارک کے دن شہید کئے گئے۔ حضرت جبیر بن معطم ؓ نے آپ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اورحش کوکب میں دفن کیا گیا ۔امیر معاویہ ؓ نے حکم دیا کہ احاطہ کی دیوار گِرادی جائے یہانتک کہ وہ جنت البقیع قبرستان میں شامل ہوجائے۔
حضور انور نے آخرمیں مکرم مولوی محمد ادریس تیروصاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ ، مکرمہ امینہ نائیگا کارے صاحبہ یوگنڈا ، مکرم نوری قزق صاحب شام اور مکرمہ فرحت نسیم صاحبہ ربوہ کی وفات پر ان کے ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان سب کے نماز جنازہ غائب پڑھانےکا اعلان فرمایا۔